حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
کشمیر کے سفر کا آخری دن تھا‘ حضرت نے اپنے رفقاء سے کہا کہ کبھی حضرت بل نہیں دیکھا چلو وہاں چلتے ہیں‘ مغرب کی نماز بھی وہیں پڑھ لیں گے‘ حضرت مولانا قاسم صاحب کے حکم پر سب لوگوں نے پروگرام بنالیا‘ وہاں پہنچے تو مغرب کی اذان ہونے لگی‘ مغرب کی نماز میں وہاں کے کارکنان غیرمسلموں کو نکالنا شروع کردیتے ہیں‘ گووا کا ایک ٹور جو اکیس بائیس مرد، عورتوں اور بچوں پر مشتمل تھا وہ بھی وہاں زیارت کیلئے آیا ہوا تھا اذان کی آواز سن کر احترام و عقیدت سے ساری خواتین نے دوپٹوں اور ساڑیوں کے پلو سے اپنے سر ڈھک لیے‘ مردوں نے بھی رومال نکالے اور سر ڈھک لیے‘ مؤذن جیسے جیسے اذان کے کلمات اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا یہ سب مردو عورتیں اپنے ہاتھوں اور سر کو اوپر نیچے ہلاتے اور کہتے مالک آپ کا نام بڑا ہے‘ مالک آپ کا نام بڑا ہے‘ اذان کے ہرکلمہ پر وہ عقیدت اورمحبت سے یہی کہتے رہے‘ اذان ختم ہوئی‘ ہمارے رفیق دعوت انور بھائی جو بحیثیت خادم حضرت کے ساتھ تھے‘ انہوں نے رفقاء سےکہا کہ ان بے چاروں نے اتنی محبت اور عقیدت سے اذان سنی ہے ہم ان کو بتاتو دیں کہ اذان میں مؤذن نے کیا کہا ہے؟ اذان کے حوالے سے انہوں نے دعوتی بات کی‘ اور پندرہ منٹ میں سب اکیس یا بائیس مرد عورت اور بچے کلمہ پڑھنے کیلئے تیار ہوگئے۔ انور بھائی نے ان کو کلمہ پڑھوایا اور اس خیال سے کہ ان تازہ ایمان والوں کے ساتھ ہمیں بھی نماز نصیب ہوجائے گی ان لوگوں سے کہا:مسلمان ہوگئے تو اب آپ کے ذمہ پانچ وقت کی نماز ضروری ہے ان میں سے ایک نماز کا وقت یہ ہے جس کیلئے مؤذن آواز لگارہا تھا‘ چلو اللہ کے سامنے عبادت کیلئے ہاتھ منہ دھو کر وضو کرلو‘ سب لوگ آمادہ ہوگئے مگر ہائے رے ہماری پاکیزگی! وہاں کے عملہ اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو وضو خانہ نہیں جانے دیا اور کہا کہ یہ لوگ کافر ہیں! وضو خانہ بھی ناپاک ہوجائے گا انور بھائی نے کہا یہ لوگ ابھی ایمان لائے ہیں لوگوں نے کہا ہمیں معلوم ہے کیسا ایمان لائے ہیں؟ نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی‘ ان میں سے ایک نوجوان الگ سے ایک طرف ایک نمازی کے ساتھ جاکر اس کو دیکھ دیکھ کر وضو کر آیا اور آکر بولا میں نے وضو کرلیا‘ آپ کے ساتھ نماز پڑھوں گا۔ ان لوگوں کے ساتھ دوسری جماعت میں اس نے نماز پڑھی‘ انور بھائی نے بتایا کہ اسلام کے بعد اس نوجوان کا حال دیکھ کر کلیجہ پھٹا جاتا تھا‘وہ اپنے ہاتھ زمین پر مار مار کر بلک بلک کر رو رہا تھا اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہہ رہا تھا‘ ربا ربا آپ نے مجھے کہاں کہاں دھکے کھلائے‘ کہاں امرناتھ اور یشنو دیوی میں سر کھپاتا رہا‘ جب آپ کو اس دربار میں ملنا تھا تو پہلے ہی اس دربار میں کیوں نہیں بلالیا‘ میں کہاں کہاں آپ کو ڈھونڈتا رہا اور در در بھٹکتا رہا۔کاش! ہم انسانیت کے درد کو سمجھتے اور صرف اذان کے حوالے سے انہیں ان کو کریم رب کی طرف سے حی الصلوٰۃ حی علی الفلاح کی دعوت سمجھا دیتے‘ ایک ہزار سال سے ہم ان کے ساتھ اس ملک (انڈیا) میں رہ رہے ہیں مگر آج تک اپنے مالک کی تلاش میں سرگرداں اس محبت بھری اور رضائے الٰہی کی تلاش میں حد درجہ قربانی اور تیاگ کرنے والی اس قوم کو اذان کے معنی نہیں بتاسکے کہ زیادہ تر برادران وطن کویہی اشکال رہتا ہے کہ اتنے دن ’’اکبربادشاہ‘‘ کو مرے ہوئے ہوگئے‘ مسلمان ابھی تک اکبر کو یاد کرتے ہیں‘ یااللہ‘ اکبر کا سامہان راج پھر ہو‘ حالانکہ ہمیں خیرامت کا منصب اور لقب اسی دعوتی ذمہ داری کے اعزاز میں دیا گیا تھا اور اس دعوتی ذمہ داری سے مجرمانہ غفلت کی اس سے زیادہ کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ جو اذان مسجد کے میناروں سے ہروقت ان کے کانوں میں پڑتی ہے اس کے بارے میں انہیں اتنی غلط فہمی ہے کہ کبیر جیسے مذاہب کے اتحاد کے علم بردار نے جس کے بارے میں اس پر بحثیں ہوتی ہیں کہ وہ شاید مسلمان ہی تھا اس نے اپنی ہندی شاعری میں اذان کے بارے میں ایسی حماقت آمیز بات کہی ہے:۔(نعوذ باللہ)
کانکر پاتھر جوڑ کے مسجد لیو بنائے
تاچڑھ ملا بانگ دے کیا بہرا ہوا خدائے
وہ نادان بے چارہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ مؤذن مسجد سے خدا کو نہیں بلکہ خدا کا منادی ہوکر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بلاتا ہے۔ کاش! ہم نے حق ادا کیا ہوتا اورغیریت اور بیگانگی کی عینک اتار کر اس قوم کو اس کا حق پہنچایا ہوتا یا کم از کم اذان کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا پیغام ان تک پہنچایا ہوتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں